خاموشی۔۔۔

خاموشی۔۔۔
پھر وہی خاموشی۔۔۔
خاموشی اور بین۔۔۔
اور ورم آلود پپوٹے
اور بھاری پن
دکھ کی بھی جڑیں ہوتی ہیں
اندر ہی اندر پھیلتی چلی جانے والی
خاردار اور نوکیلی
ایک دکھ میں بہت سارے بیج ہوتے ہیں
جو سارے کے سارے درخت بن جاتے ہیں
اندر ہی اندر
اور تناور ہوتے چلے جاتے ہیں اور خاموشی چھا جاتی ہے
ایک بے سہارا دل
چپ کے درختوں کے نرغے میں آیا ہوا
جہاں دھوپ چھ اطراف سے پڑتی ہے
اور چیخنے بھی نہیں دیتی
میں پانی پیوں گا۔۔؟
یا روتا ہی رہوں گا۔۔۔؟
آنکھوں میں آنسو تو باقی بچے نہیں
خالی دکھ بہتا رہتا ہے
اور پھر آخر کار خاموشی
اور آسمان دور چلا جاتا ہے
ظاہر ہے
ایک مثبت تسلی کب تک ساتھ دے سکتی ہے
میں اب اپنے اندر خاک پر بیٹھ گیا ہوں
اور راکھ میں نے سر میں رچا لی ہے
میں نے خاموشی کا سنگھار کیا ہے
آہستہ آہستہ یہ سنگھار بڑھتا جا رہا ہے
ایک دن آئے گا جب میں خاموشی کی دلہن بن جاؤں گا
اور آنسوؤں کی بارات آئے گی
آہوں کا میلہ لگے گا
پتہ نہیں میرے لئے کوئی بین گانے والا بھی ہو گا کہ نہیں
موسم تو ہمیشہ وحشی اور اکھڑ گھوڑوں کی طرح رہے
سخت اور پتھریلے سموں والے
اور مجھے روندتے رہے
غم کب تک میری پرورش کرے گا
معلوم نہیں وہ سڑک ہر بار دور جا کے
میری طرف پلٹ کیوں آتی ہے
جو میری تنہائی کے احساس کا سانپ ہے
میں اب اور کتنا نیلا ہو سکتا ہوں
ایک پرانا اور مستقل گھاؤ
وقت نے بھی مجھے عین دل کے مقام پر ڈسا ہے
تھوڑا ادھر ادھر ہو جاتا تو کیا تھا
میں اس طرح کا نہیں رہا
میں تو کسی طرح کا نہیں رہا
تو پھر مجبور کون ہوا؟
میں یا خدا۔۔؟
یا دونوں۔۔؟
اگر میں خدا کا حصہ ہوں
تو میں غم ہی غم ہوں
اپنی چپ کے سینے پر قطرہ قطرہ ٹپکنے والا
پگھلا ہوا روگ
میں کائنات کی بصیرت پر ہنس دیتا ہوں
جب ایک بچہ اپنی انگلی کاٹ لینے پر حیران ہو کر رو پڑتا ہے
اور اپنے دل پر گرا ہوا زخم اٹھا لیتا ہوں
تمہارا کیا خیال ہے؟
زخم اٹھاتے ہیں اور چل پڑتے ہیں
زخم اٹھا لیتے ہیں اور خط رہنے دیتے ہیں
زخم بھی تو خط ہی ہیں جو زندگی نے ہمیں لکھے ہیں
آنکھوں کے پوسٹ بکس اٹھائے عرصہ بیت گیا
وقت کے اختتام پر صرف خاموشی ہوتی ہے
یا کسی سہمے ہوئے آنسو کی لکیر
یا میلے رخساروں پر پانی کا نشان
اور چپ
نوکیلے خار اور دیگر چھوٹی چھوٹی چبھ جانے والی چیزیں
کیا اب کوئی اور مذہب ایجاد کرنا پڑے گا
اور کیا پھر ایک بار نئے سرے سے صراط مستقیم بتانا پڑے گا
موت کو شکست دینے والا مذہب
یا طفل تسلی
یا پریوں کے دیس کی کوئی کہانی
خوابوں کی افادیت خوابوں کے سمجھ نہ آنے تک ہی ہوتی ہے
ورنہ راز راز ہی دفن ہو جاتے ہیں
سکھ کی خواہش میں طے کیے گئے راز
اور خوابوں کے کونے کھدرے
بیچارے
Exposed
مذہب نہ ہوتے تو ان لوگوں کا کیا بنتا
اربوں اور کھربوں حیوان
لیکن مجھے تعمیری نظام چن لینے کا بھی کیا فائدہ ہوا
یا پتہ نہیں میں کس شے کو فائدہ سمجھ رہا ہوں
یا پتہ نہیں فائدہ کیا ہوتا ہے
نقصان، نقصان، نقصان
محبت
جب ہم تکلیف کو آگے بڑھ کر گلے لگا لیتے ہیں
اور اس کا ماتھا چومتے ہیں
اور سمجھتے ہیں کہ قبر کی بے ساختہ ہنسی کچھ بھی نہیں ہوتی
سانسوں سے چپو چلانا
دل کی دھڑکنوں کے کندھوں پر دھرا ہوا بوجھ تو
صدیوں کی کمریں جھکا دیتا ہے
اب میں خدا، اور وطن کے دھوکے میں آنے والا نہیں ہوں
میں صرف انسانیت کے دھوکے میں آ سکتا ہوں
وہ بھی شاید جانتے بوجھتے
بندھے ہوئے سانسوں اور جھکی ہوئی کمر سمیت
اور کسی بھی خط کی پرواہ کیے بغیر
آزادی طاقتور کا جھوٹ
اور کمزور کی التجا نہ ہوتی تو کیا کسی لڑکی کا برہنہ جسم ہوتی
یا فحش خیالات اور بے شرمی
اور قوائد و ضوابط کا ڈھکو سلہ
کیا زندگی چھوٹے چھوٹے لاوارث پتھر اٹھاتے بیت جائے گی
کیا ہماری بنیاد لاوارث پتھروں کے علاوہ
کسی اور اینٹ سے نہیں رکھی جا سکتی تھی
کیا یہ بھی کسی کتاب میں لکھا ہے
یا کوئی اوتار آ کر بتا گیا تھا
حیف ہو بادشاہوں پر
ایسے بادشاہوں پر
جیسے ہمارے ہیں
ناسور ہونے پر فخر کرنے والے
مغرور غلاظتیں
اچھا تو یہی ہے کہ ہم اپنی اداس شاموں سے باہر ہی نہ آئیں
اور دکھ بھرے گیت گنگناتے رہیں
اور ادھ کھلی نظموں کی کونپلوں سے کھیلتے رہیں
اور ویران راتوں سے ٹیک لگا کر جاگتے رہیں
خشک آنکھوں سے روتے رہیں
کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی آنسوؤں کا خدا بھی تو ہو گا
یا یہ بھی راز والی ہی بات ہے۔۔۔؟
سوجی ہوئی آنکھوں اور پتھرائے ہوئے پپوٹوں والے راز
اور زہریلی اداسی
اور دکھی ہوئی بے چینی
حوصلہ ہار جانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا
غم کے چھوٹے چھوٹے خانے بنا لینے سے
ہو سکتا ہے شدت میں کمی آ جاتی ہو
غموں کی تعداد میں برابر اضافہ ہو جاتا ہے
رات رینگتی رہتی ہے
اور ہم سوچتے رہتے ہیں
ہو سکتا ہے کائنات کسی پرانے درد کا پچھتاوا ہو
اور ہمیں کہاوتوں میں الجھا لینے والے جال کی خفت کے ہاتھوں مجبور ہو گئی ہو
اگر جنت کا لالچ اور دوزخ کا ڈر نہ ہو
یہ انسان کتنا نیچ ہے
یا ڈر
یا لالچ
اور محبت صرف خود غرضی
اور محرومیوں کا مداوا
اور دل کی
Exploitation
آنسوؤں کی کوئی قیمت ہوتی تو میں کتنا دولت مند ہوتا
اور کسی جنت دوزخ کے لالچ اور خوف کے بغیر
نیکی کر سکتا
اور اعتراف کے طور پر مذہب ایجاد کرتا
اور کمینے انسانوں کی زد سے
معصوموں کو بچانے کی ناکام کوشش کرتا
اور اپنے آپ سے سرخرو ہوتا
اور بے شک کہہ دیتا کہ میں اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوا
جنگ ہوتی ہے
کروڑوں بے گناہ مارے جاتے ہیں
اور ہم رب تلاش کرتے رہتے ہیں
رب جنگیں پسند کرتا ہے
اس لئے دخل نہیں دیتا
خدا ہماری کسی بات میں دخل نہیں دیتا
بس ہماری آخری تسلی اور آخری پناہ ثابت ہوتا رہتا ہے
میں نے اپنے رب کو اپنے غموں سے پہچانا ہے
اور تمہارے رب کو تمہاری خود غرضی سے
جو خدا کو پہچانتا ہے دنیا میں سب سے زیادہ غمزدہ وہی ہوتا ہے
میرے اور میری موت کے درمیان
چند بے سہارا پودے ہیں
اور ایک محدود مدت
اور ایک دکھ بھری تگ و دو
حقیقتوں کی شناخت نے مجھے موت سے پہلے ہی مار دیا ہے
ہو سکتا ہے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاؤں
میرے بدن کی کھاد
کسی پیڑ کو سر سبز کر جائے
یہی دوسرا جنم ہوتا ہے
فطرت کی کرشمہ سازیاں
اور زندگی کی قلابازیاں
وقت ہمیں حالات کی ایک گلی سے دوسری گلی میں
دھکیلنے والا انتظار ہے
جو اکثر پورا ہوتا رہتا ہے
پورے تو صرف خواب نہیں ہوتے
وہ بھی ہم جیسوں کے خواب
ان جیسوں کے خواب تو ہوتے ہی پورے ہونے کے لیے ہیں
میں نے اپنی تمام جیبوں سے ہر طرح کی آرزوئیں
نکال پھینکی ہیں
اور خدا کے نام منسوب کیا گیا کلام پڑھتا رہتا ہوں
خدا کا کلام
یہی محبت ہے
یہی عشق ہے
میں تو شاید بھی کسی کو نہ دے سکوں
اور اتنا سارا کلام
اور اتنا بڑا کلام
تمام تعریفیں صرف اللہ کی
اور انسان صرف خطا کا پتلا
اور ہمیشہ خسارے میں
کیا خدا بھی خسارے میں ہے
دنیا کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے
خدا مجھے ملتا تو میں اس کے گلے لگ کر روتا
اور تعزیت کرتا
اور اس کا دکھ بانٹتا
اور کہتا کہ اے میرے غمزدہ خدا
حوصلہ رکھو
اللہ بہتر کرے گا
اور وہ کچھ دیر کے لئے اچھا ہو جاتا
صابر اور اداس
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *