کسی بھی انتہا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے
مری جاں یہ زمانہ ایک سسٹم ہے وفا کا
مگر اس باوفا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے
مری نظریں بہت زیادہ ہی خالی ہو گئی ہیں
ہوا ہے اور ہوا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے
ابھی تو ابتدا ہے اور ہمیں یہ بھی خبر ہے
ہماری ابتدا کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)