خط

خط
میں تمہیں بہت سلام بھیجنا چاہتا ہوں
لیکن جہاں میں رہتا ہوں وہاں درخت نہیں ہیں
صرف خزاں رہتی ہے
خشک پتے بھی نہیں ہیں
صرف اور صرف زرد اور پیلی سانسیں ہیں
میں تمہیں دعائیں بھیجنا چاہتا ہوں
لیکن پھر سوچتا ہوں
دعاؤں کا کیا بنے گا
یا اگر کوئی بھولی بھٹکی دعا
تمہیں لگ ہی گئی
تو تمہارا کیا بنے گا
عادت چاہے دکھ کی ہی کیوں نہ ہو
عادت ہی ہوتی ہے
میں تو تمہیں اپنے آنسو بھی نہیں بھیج سکتا
مرجھائی ہوئی چیزیں بھیجنے کا کیا فائدہ
کیا میں تمہیں اپنے زخم بھیج دوں
تازہ کھلے ہوئے زخم
یا عجیب و غریب پھول
خاموش اور گم سم
لیکن بہتر یہی ہے تمہیں دکھ دینے والی
اور اداس کر دینے والی کوئی بھی شے نہ بھیجی جائے
محبت بھی نہیں اور یاد بھی نہیں
بس خیریت بھیج دی جائے
میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *