خطوں میں دفنایا ہوا جیون

خطوں میں دفنایا ہوا جیون
نگر شاداب ہے
بازار کے ہر موڑ پر رونق لگی ہے
اور گھروں سے مسکراتی زندگی کی دلنشیں آواز آتی ہے
شجر ٹھنڈی ہواؤں میں گھرے ہنستے ہیں
پتے دیر تک تالی بجاتے ہیں
دریچے آنکھ سے آباد
دہلیزیں سجی ہیں نِت نئے قدموں کی جھالر سے
اُسے رنگوں سے الفت تھی
گھرا ہے آج بھی رنگوں کے مجمعے میں
کہیں دامن پکڑتا
اور کہیں پلّو چھڑاتا کھلکھلاتا ہے
اسے گیتوں سے اتنا پیار تھا
جتنا کسی کوئل کو جنگل سے
وہ اب بھی ادھ کھلے، کچے، رسیلے گیت
سانسوں میں پروئے گنگناتا ہے
سمندر لوٹتا پھرتا ہے خوشیوں کے
مجھے دیوانگی تھی حرف لکھنے کی
جنوں تھا لفظ کہنے کا
ادھورے، مضطرب، بے چین، پژمردہ، حروفِ بے زباں
الفاظِ بے چہرہ
سو لکھتا پھر رہا ہوں درد کے نیلے لفافے پر
بھلا
ایسے شکستہ اور بوسیدہ خطوں کو کون پڑھتا ہے
خطوں میں ہم نے تو دفنا دیا جیون
مگر پھر بھی
نگر شاداب ہے
بازار کے ہر موڑ پر رونق لگی ہے
اور اُسے فرصت نہیں ملتی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *