اپنی بربادی میں بربادیِ جاں تک دیکھوں
مجھ سے مانگو تو سہی مجھ کو مری جان اک بار
تو میں مجرم ہوں اگر اپنا نشاں تک دیکھوں
میری قسمت میں مہکتے ہوئے کافور بتا
موت ہی موت میں اب اور کہاں تک دیکھوں
میں جنازوں کی قطاروں میں گھرا ہوں یارو
برف ہی برف نظر آئے جہاں تک دیکھوں
میرے آنسو ہیں کہ پلکوں سے لگے بیٹھے ہیں
تیری خواہش ہے کہ ویرانی جاں تک دیکھوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)