خواب سہارے

خواب سہارے
کیسے کھولیں
ہم خوابوں سے کٹ کر آنکھیں کیسے کھولیں
کیسے کھولیں
بانجھ صداؤں کے موسم میں
کیسے ہاتھ اٹھائیں ہم مفلوج شکستہ بازوؤں والے
کیسے ہاتھ اٹھائیں
ہم جو یہ بھی جانتے ہیں کہ
کتنی کاٹ ہے سروں پہ اُگے ہوئے سانپوں کے زہروں میں
کیسے ڈھونڈیں
اور ہم کیسے کھوج لگائیں
کہاں کہاں پر کون ہے کس کی گھاتوں میں
ان راتوں میں
اب تو اپنا ہاتھ خود اپنے ہاتھ تھماتے ڈر لگتا ہے
اور اس ڈر میں
کیسے ممکن ہے کہ چل دیں
پَل پَل ڈستے راتجگوں کی ہمسفری میں
آرزوؤں کو روگ لگاتی اِس نگری میں
اندیشوں کے غول میں گھرے ہوئے لوگوں کی
بس لے دے کے خواب پناہیں، خواب سہارا
آپ ہی بولیں
ہم خوابوں سے کٹ کر آنکھیں کیسے کھولیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *