دشت در دشت مسافت ہی سہی
ہے بغاوت تو بغاوت ہی سہی
شہرِ بے درد سے ہجرت ہی سہی
سارا کچھ بس میں کہاں ہوتا ہے
مری عزت تری غفلت ہی سہی
شرط تو عالمِ بیداری ہے
صورتِ حال پہ حیرت ہی سہی
سر چھپانا جو ضروری ٹھہرا
خانہء کوئے ملامت ہی سہی
کچھ نہ کچھ اس نے کیا تو ہم سے
نہ سہی عشق سیاست ہی سہی
کوئی ہلچل تو مچی ہے دل میں
عالمِ خوف حراست ہی سہی
کچھ گنہ ہم سے بھی ہوجاتے ہیں
حاکمِ وقت کی بیعت ہی سہی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)