خواہش کے آثار نظر آئے تھے اس کی آنکھوں میں

خواہش کے آثار نظر آئے تھے اس کی آنکھوں میں
جو کچھ بھی تھا پاس ہمارے ہم نے اس پر وار دیا
ایک زمانہ
سخت مشقت کر کر کے
چاند، ستاروں کی تصویریں
بادل کی رفتار
دعاؤں کی خواہش اور
کم سن بچے کی مسکان خریدی تھی
تم نے چاہا
ہم نے سارا کچھ اپنا
بن سوچے بن سمجھے تم پر وار دیا
جس جس نے بھی
تجھے ذرا بے چینی دی
ہم نے اس میں سو سو زہر اتار دیا
لیکن جاناں
آخر ہم انسان تھے
اپنی بھی حد تھی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *