اداس مت ہو
دلِ مسافر اداس مت ہو
ہوا اگرچہ پھوار دامن میں بھر کے لائی ہے بے کلی کی
فضا اگرچہ کسی خموشی سے مضمحل ہے
نگاہ میں کوئی راہ حدِّ نگاہ تک بے پناہ خالی ہے
دن سوالی ہے، رات کالی ہے
شام روتی ہے
من بھگوتی ہے
آس بھی گرچہ بس خیالی ہے، بس خیالی۔۔۔۔
اُداس مت ہو
مگر تو پھر بھی اداس مت ہو
اُداس مت ہو
اگر چہ لمحوں کی سرد پوروں پہ ہجر لکھا ہوا ہے برسوں
اگرچہ وقتی خوشی کے سینے پہ مستقل درد مل گیا ہے دعا کی سرسوں
اگرچہ احساس کی رگوں میں
کوئی اندھیرا سا جم گیا ہےخیال میں وقت تھم گیا ہے
ابھی کوئی انتظار آنکھوں سے کم گیا ہے
ستم گیا ہے نہ کوئی رنج و الم گیا ہے (نہ صبر کے سر کاخم گیا ہے)
یہ سب تمہارے ہی پیرہن ہیں
ابھی سے یوں بے لباس مت ہو
دلِ مسافر
اداس مت ہو
ابھی تو آنکھوں میں آنسوؤں کی بہت جگہ ہے
ابھی تو راتوں کے جنگلوں میں مسافتوں کی بہت جگہ ہے
ابھی تو آہوں کے قافلوں میں بہت نمی ہے
ابھی تو ہر شے کی زندگی میں بہت کمی ہے
ابھی سے یوں خود شناس مت ہو
اداس مت ہو
دلِ مسافر
اداس مت ہو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)