بتا دئیے ہیں کی سال ہم نے جینے میں
چراغ دل جسے جلنا تھا ایک عمر تلک
بجھا کے رکھ دیا کس نے ہمارے سینے میں
وگرنہ ہم بھی تیرے ساتھ ساتھ چل دیتے
لگے گا وقت ہمیں تار تار سینے میں
ریاض تھا کسی غم کا ،کمال دل کا تھا
لہو بھی آن ملا ایک دن پسینے میں
چھٹا ہے ابر مگر دھوپ کی جوانی میں
کھلا ہے چاند مگر موت کے مہینے میں
پلٹ بھی آئے بنا کچھ لئے دیے فرحت
اٹھا کے پھینک دیا ناگ بھی خزینے میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)