خوف نے خواب میں رکھا جو قدم

خوف نے خواب میں رکھا جو قدم
کپکپاہٹ سی کہیں سے آئی
اور کسی جال کے مانند بدن سے لپٹی
خون گھبرایا ہوا سانپ بنا دوڑا
اچانک دل بے بس کی طرف
دل نے آنکھوں میں اندھیرا پھینکا
سر سے ٹکراتا ہوا دھم سے گرا ماتھے پہ اک درد مہیب
کھینچ لی جان ہواؤں نے
تو کانوں میں عجب شور ہوا
خامشی چیخ پڑی ہو گویا
بھاگ جانے کو ملی بند گلی
اور تحفظ سے گرے ہاتھ کہ اٹھتے ہی نہ تھے
پیاس بن بن کے پسینے نے برا حال کیا
برف کی موم سی جن آئی لبوں پر اتنی
چھپ گئی سرخی آثار نفس
خوف نے خواب میں رکھا جو قدم
دور کرلایا کوئی سویا ہوا ایک ہجوم
چاند نے سنگ گرایا کوئی پیشانی پر
آسماں نے کوئی چابک مارا
آنکھ میں آنسو نہیں تھے فقط اک صحرا تھا
ریت ہی ریت تھی جو
دیر تلک بہتی رہی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *