خیال و خواہش و غم کا نصاب کیا رکھتا

خیال و خواہش و غم کا نصاب کیا رکھتا
مری تو آنکھیں نہیں تھیں میں خواب کیا رکھتا
ندامتوں کے سفر کا حساب کیا رکھتا
وہاں تو لب ہی نہیں تھے جواب کیا رکھتا
فریب باطنی شدت بنا نہیں ممکن
کسی کو پیاس نہیں تھی سراب کیا رکھتا
وہ تھا تو سارے خرابے تھے اس کے ہونے کے
میں اس کے بعد گناہ وثواب کیا رکھتا
وہاں تو کوئی کسی کی خوشی نہ رکھتا تھا
میں اپنے پاس کسی کا عذاب کیا رکھتا
میں اس کی سوچ سے سوچا سفر گنوا آیا
میں اس کے ہاتھ سے لکھی کتاب کیا رکھتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *