خیال سو رہے تم

خیال سو رہے تم
خیال سو رہے تم
ذرا اٹھو
کہ دل سے اٹھنے والی ہوک
آنکھ کے دریچہ ء مکان تک پہنچ گئی
کہ جیسے چمنیوں کی کوکھ سے دھواں فضا کی وسعتوں کے درمیان تک
ملول سی صدا کوئی
اداس اور مضمحل ہوا کوئی
جہان برف پوش سے
تہہ نشیب آرزو رواں ہے ایک جوش سے
لہو کی گردشوں کی لہر لہر میں
چھپے ہوئے عذاب کسمسائے ہیں
سنپولیے کسی کمین گاہ میں مداخلت ہوئی تو کلبلائے ہیں
یہ خوف ہے
کہ گر کہیں کوئی خراش بہتے بہتے روح کو نکل گئی
تو اس میں سو طرح کے انتشار کا جواز ہے
جو راز ہے ہمارے دل کے صبر کا
ابھی سنبھالنا بھی ہے
ابھی تو ڈھالنا بھی ہے اسے کسی پناہ میں
خیال سو رہے تم
اٹھو کہ صوت
بے زبانیوں کی قبر میں پڑی پکارتی ہے وہم سے
پکار کے دراز سائے اس قدر مہیب ہیں
کہ خوفناک رات بھی دبک گئی ہے سہم کے
اٹھو
کہ لفظ معنوی جمال سے تہی کھڑے غریب ہیں
عجیب ہیں
یہ بے حسی کے سال بھی
یہ بے کنار درد بھی یہ ان گنت ملال بھی
خیال سو رہے ہو تم
سوال ہیں کہ جاگتے کہیں نہیں
یا
کال ہیں کہ بھاگتے کہیں نہیں
خیال اپنے بادبان کیوں ڈبو رہے ہو تم
خیال سو رہے تم
شجر شجر پہ جال ہے بہار کا
نظر نظر پہ دھند ہے غبار کی
ہر ایک سمت سحر طاری ہو گیا ہے
پھر کسی حصار کا
کہ جیسے پانیوں میں عکس دور تک ہو بادلوں کی ڈار کا
اور ایسے وقت میں
کہیں پہ گھات میں چھپی ہوئی
ہواؤں کے سروں پہ ایک خبط ہے شکار کا
اٹھو یہ جال کاٹ دو
غبار کو اڑا کے
یہ حصار کا طلسم چیر پھاڑ دو
ہجوم کی طرح تمام راہگزر لتاڑ دو
ہواؤں کو منع کرو
کہو کہ اب ہر ایک شے تو خود ہی ہست کا شکار ہو چکی ہے
عمر سے
جسے بھی دیکھ لو ہر ایک اپنا آپ مارنے پہ تُل گیا ہے
رُل گیا ہے ریت کی طرح خود اپنے دشت میں
کسی کا دھڑ اجل کے کارزار میں شکستگی کی انتہاؤں پر پڑ ا ہے اور کسی کا
سر دھکتی زندگی کے طشت میں
خیال سو رہے ہو تم
تو کوئی بولتا نہیں
تمھارے بد نصیب سے
مرے حبیب لگ تو یہ رہا ہے پوری کائنات سو گئی ہو جیسے لمبی تان کے
یہ ٹھان کے
کہ اب کسی بھی طور جاگنا نہیں
تمھیں خبر ہے ؟
کوئی کھل رہا ہے در مہیب سے مقدروں کے درمیاں
کہیں کسی صلیب سے
ذرا اٹھو
ذرا جگا سکو
بتا سکو
دکھا سکو
کہ کچھ عجیب سے خراب خواب ہیں فضاؤں میں
کہ جس طرح سلگتی دھوپ کے نشان چھاؤں میں
گزر رہے ہیں جو ہمارے اس قدر قریب سے کہ سوجھتا کوئی نہیں
پہیلیاں ھزار ہیں
مگر یہ کیا کہ بُوجھتا کوئی نہیں
خیال سو رہے ہو تم
اٹھو کہ شہر موت کے حصار میں گھرا ہوا ہے
اور کوئی در نہیں
تمام شعبدہ گروں کے غول مل کے
اپنے اپنے جنگلوں میں
اپنی اپنی ذات کے مفاد میں
جسے بلانے کے لیے گئے ہیں وہ بھی گھر نہیں
اگرچہ ایسے درد ناک وقت کے غبار میں
تمھیں تو کوئی ڈر نہیں
مگر تمھاری نیند بھی صحیح نہیں
غرور ہے
اٹھو
کہ چُپ زدہ فضا کا جبر ہم نے توڑنا ضرور ہے
خیال سو رہے ہو تم
اٹھو
کہ لوگ اپنی اپنی روح کے، —
عقیدہ ہائے دین کے، فشار کا شکار ہیں
یہ زندگی کے اضطرار میں پلے بڑھے ہوئے
یہ بزدلی کار دار نیک لوگ
روگ ہیں زمین پر
عذاب سے ڈر ے ہوئے شریف ہیں
وگرنہ خود
خدا کے سب سے،آخری و اولیں حریف ہیں
انھیں جھنجھوڑ دے پکڑ کے دامن یقین سے
نہیں تو چھوڑ دے سکون
توڑ دے سہولتوں کی صورتیں
ہرے بھرے تمام زخم
پھوڑ دے
خیال سو رہے ہو تم
اور اعتماد کی جڑو میں شک اتر گیا ہے یوں کہ جیسے دن کے آخری
پلوں میں سیاہ تیرگی
پلک جھپکتے ہی وفا کی سب چمک دمک گئی
خلوص کو
ہماری نیتوں کا میل ڈھک گیا
خیال سو رہے ہو تم
زمین کی تہوں میں دفن
حرص کی دبائیں جیسے پک گئیں
سسک کے رہ گئیں مروّتیں سبھی
دعائیں جانے کون کون سے جہان تک گئیں
مساعئی فروغ بے غرض تعلقات بے ثمر ہوئیں
تو تھک گئیں
تمام تر ثقافتوں تمدنوں کی عفتوں سے بھاگ کر
پلٹ کے پھر جبلتوں کے پنجروں میں
قید ہو رہے ہو تم
خیال سو رہے ہو تم
شکستہ ہو رہی ہیں سب عمارتیں
امانتیں غریب ہو رہی ہیں ٹوٹ ٹوٹ کر
مسافتیں گرفت میں نہیں رہیں
بدن کا عضو، عضو مضمحل ہے
تار تار مضطرب ہے
اور سماعتیں چٹخ رہی ہیں
گنگ ہیں بصارتیں
تجارتیں عروج پر ہیں موت کی
نفس ہے
اور رواں دواں زیاں کا
ایک بحر بے کنار ہے
تمہاری غفلتوں کا کیا شمار ہے
کہ اس طرح کے عالم شدید میں بھی
دشمنوں کے ساتھ مل کے
ہر سفینۂ رجا کی جان کے خلاف
اپنی سازشوں کے جال بن رہے ہو تم
خیال سن رہے ہو تم
سن رہے ہو تم۔۔ ۔ ۔
اب تو آسماں بھی کہہ چکا ہے
اور زمیں بھی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے
جاگ اٹھو
وگرنہ اس جہان بے اماں کے ہر نشان کو
یہ بے زبان نیند چاٹ جائے گی
جہاں جہاں بھی شہ رگ حیات کسمسائے گی
یہ نیند اس کو صرف لمحہ بھر میں کاٹ جائے گی
خیال
سن رہے ہو یا ابھی تلک
ملامتوں کا بوجھ ڈھو رہے ہو تم
خیال سو رہے ہو تم
اور ہم سے تو ہمارا اپنا آپ
اتنا دور ہوتا جا رہا ہے
غیر ارادی طور پر
کہ روکنا محال ہے
نڈھال ہیں مزحمتیں شعور کی
یہ خود سے اجنبیتوں کا دور
کتنا دکھ بھرا سوال ہے
ہمیں ملال ہے کہ ایسا وقت دیکھنا پڑا
اچھالنی پڑی ہیں اپنی بگڑیاں زمین پر
بگاڑنے پڑے ہیں اپنے آئینے
خیال سو رہے ہو تم
کمال ہے
خیال سو رہے ہو تم
اٹھو ذرا
کہ چاندنی کی راکھ ا ڑ رہی ہے
سارے شہر میں
اداس ہو رہے ہیں ہم
اداس ہو رہے ہیں ہم
ہمیں ھمارے اپنے اپنے، یاد آ رہے ہیں
جو یہیں کہیں بچھڑ گئے
اجڑ گئے جو رابطے اذیتوں کی بھیڑ میں
اذیتوں کی بھیڑ
جو محبتوں پہ برف بن کے گر رہی ہے آج بھی
سماج میں
تمھارے بن
صدائے احتجاج کے مزاج کا رواج ہی نہیں رہا
خیال
ماضیوں کی سب رفاقتوں کی
بازگشت تو تمھارے دم سے تھی فضاوں میں
ہواوں میں تمہارے دم سے
چاہتوں کے موسموں کا رنگ تھا
تمہی سے تھی
کلی کلی کی آنکھ میں شگفتگی
تمھارے بن ۔ ۔ ۔ ۔
تمھارے بن تو زندگی کے
ہر طرح کے رنج کا مزا بھی کرکرا ہوا
فقط تمھاری نیند کے سبب ہوا، یہ سب ہوا
خیال سو رہے ہو تم
فقط تمھاری نیند کے سبب
ہم اپنی کائنات سے علیحدہ ہو گئے
وہ کائنات بھی
کہ جو گزر گئی
وہ اجتماعی لاشعور
اور شعور مستقل ہزار ہا صدی کے ہست و بود کا
وہ اک یقین منضبط
ہر ایک شے کے قلب کے وجود کا
لرز رہاھے ظلمتو ں کے خوف سے
تمھیں یہ علم ہے کہ اس طرح ضمیر وقت میں
بہت بڑا گناہ بو رہے ہو تم
خیال سو رہے ہو تم
خیال
اب تو سانس میں
وہ کچی پکی مٹیوں کی لذتیں نہیں رہیں
وہ کچی پکی مٹیاں
جو ماؤں کی طرح سے لازوال ہیں
وہ کچی پکی مٹیاں
جو دیس کی سہاگنوں کا روپ ہیں
جو اوپلوں میں کھیل کے جوان ہوتی دھوپ میں
جو لہلہاتے کھیت ہیں
جو ساحلوں کی گنگناتی ریت ہیں
جو خوش نما و خوش خصال آنچلوں کا رنگ ہیں
جو چھنچھاتی پائلوں کا انگ ہیں
جو جنگلوں میں کھلکھلاتے ساونوں کا ڈھنگ ہیں
وہ کچی پکی مٹیاں بھی
باس کھو رہی ھیں اپنے آپ میں
اثر نہیں رہا کسی الاپ میں
سفر نہیں رہا کسی کی چاپ میں
مگن پڑے ہوئے ہو اپنے پاپ میں
اٹھو
کہ خطرۂ سکوت
بج رہا ہے طبل دل کی تھاپ میں
غم و الم کئی سیاہ نم علم، کنار سینہء ستم، قدم قدم پہ گاڑ کے
کچل رہے ہیں اپنی آہ و زاریاں
دنوں کے سنگ زا سموں کی ٹاپ میں
خیال سو رہے ہو تم
ہوس بدن پہ چھاتی جا رہی ہے پھیل پھیل کر اکاش بیل کی طرح
محبتوں کا لوچ بھی نہیں رہا ہے
عشق میں عبادتوں کی سوچ بھی نہیں رہی
دلوں میں درد کی جگہ
نجانے کیسا بوجھ آ کے بس گیا ہے
ڈس گیا ہے
آنکھ کے تلے کہیں
نگاہ کے حسین سچ کے آس پاس
کوئی دیکھتا نہیں
کسی کو غور سے کہ اس کی جستجو سمجھ سکے
کسی کو اتنا ہوش ہی نہیں
کہ ساری گفتگو سمجھ سکے
فقط
بدن کی بھوک کا اسیر ہے
کبیر جرم جرم ہی نہیں رہا
بدن کی کچھ کثافتوں کے زہر کا خروج ہے
حقیر ہے
خیال سو رہے ہو تم
مجھے پتہ ہے منہ چھپا چھپا کے رو رہے ہو تم
خیال سو رہے ہو تم
یہاں تو پورے اجتماع کی نظر کو باندھ کر
نہ جانے کس طرف کو ہانکا جا رہا ہے
ایک بے مثال بے حسی کے ساتھ
زندگی کے نام بے نمود پر
درندگی چھپا چھپا کے
جنگ ہو رہی ہے اقتدار کی
یہ رنگ و نسل و ذات و پات کی گروہ بندیاں
یہ حرف و لفظ و بات بات کی گروہ بندیاں
یہ شام شام رات رات کی گروہ بندیاں
یہ ملک،ملک کا غرور آتشیں
تباہیوں کے جس کڑے مقام تک پہنچ گیا ہے
اب وہاں سے
واپسی بھی ممکنات میں نہیں
اگر کبھی
یہاں سے واپسی ہوئی
تو ہو گی سیل آب نوح کی طرح کے
ایک سیل خون سے
بڑے کٹھور ہو
کوئی بڑے ستم ظریف ہو
پڑے ہوئے کس قدر سکون سے
بھلا بتاؤ تو سہی
یہ اپنے ذہن کی کثیف روح خور دلدلوں میں
کیا بلو رہے ہو تم
خیال سو رہے ہو تم
تو جاگنے لگی ہیں کتنی نفرتیں دبی ہوئی
اٹی ہوئی
منافقت کے روگ میں
مخاصمت کی آگ میں جلی ہوئی
پکی ہوئی
کٹی ہوئی معاشرت کے سوگ میں
خیال سو رہے ہو تم
تو جاگنے لگی ہیں
کتنی اشتہائیں
دل میں انتظام بے بسی لیے
اسی لیے
کہ لمحہء کرم کا دم نوازتے قہار کا
گداز چشم نم چبھو رہے ہو تم
خیال سو رہے ہو تم
خیال سو رہے ہو تم
دھوئیں سے اٹ گیا ہے سارا آسماں
سیاہ بادلوں میں آگ بھر گئی
ہوا بجھی ہوئی ہے سرخ زہر میں
زمین پھٹ چکی ہے
بٹ چکے ہیں کتنے راستے
تڑپ تڑپ کے کٹ چکے ہیں تار دل
ہے اعتبار بندگی سمٹ چکا
رتوں کی کچھ رفاقتوں پہ
خوش گمانیوں کے جو نقاب تھے
الٹ چکے
مسافتوں کی ہمرہی میں
رہروان شوق بھی پلٹ چکے
خلا
فضا کے ساتھ ساتھ
روح کے جہان میں بھی ڈٹ چکے
خیال سو رہے ہو تم
اور اس طرح
خود اپنے زخم زخم میں
نہ جانے کون کون سا ستم سمو رہے ہو تم
خیال
تم تو نوجوان ہو ابھی
کسی کا مان ہو ابھی
مرے ہوئے کھنڈر نہیں ہو تم کہ بے نشاں رہو
کوئی جہان ہو ابھی
خیال تم تو سائبان ہو ابھی
ضعیف یا ادھیڑ عمر چیز کوئی سو بھی لے
تو خیر ہے
شباب اور نیند کا تو پیر ہے
خیال
اسطرح کی گونگی بستیوں میں تم،تم تو خود زبان ھو
ابھی
صدا و حرف و لفظ کی
سنہری دولتوں سے سیر ہو
اٹھو تمہاری خیر ھو
ذرا اٹھو
کہ جو جہاں جہاں بھی سو رہا ہے
اس کو کون آ کے اس طرح جگائے گا
کہ جیسے صبح کی دھوپ
یا بشارت جہاد کوئی خواب میں
یا انکشاف حق
بدی کے مستقل سراب میں
اٹھو
کہ آنے والی نسل کی کوئی خطا نہیں
ہے اس کا کیا قصور جو ہوا نہیں
اٹھو
کہ آنے والی نسل کے لہو کو
سینچنا ہے تم کو
اپنے جاگتے خمیر سے
اٹھو کہ ان کو رفعتوں پہ ٹانکنا ہے
نور کے ضمیر سے
تلاشنے ہیں اور کتنے راستے
بلندیوں کی آخری لکیر سے بھی اسطرف
یہ کائنات تو بہت بڑی ہے دور دور تک
کسی بڑے فقیر سے بھی اس طرف
جسے ہمیں تلاش کے
سنوارنا نکھارنا ہے
آنے والوں کے لیے
سجا کے اپنا آپ
اپنے گھر
گلی گلی نگر
پکارنا ہے جوش سے
مگر خیال
ہوش سے
پیمبروں، ولایتوں کی آگہی کے دوش سے
خیال سو رہے ہو یا
لباس سے سیاہیوں کے داغ دھو رہے ہو تم
خیال اپنے عارضوں کو
کیوں بھگو رہے ہو تم
خواب سو رہے ہو تم
تمھیں خبر نہیں کہ کتنا کچھ یہاں بنا ہوا تھا
جس کو کھو رہے ہو تم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – خیال سو رہے ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *