خیالوں کے سمندر کے لیے ساحل ضروری ہے

خیالوں کے سمندر کے لیے ساحل ضروری ہے
وگرنہ لوٹ آنے کی خوشی بے کار ہو جائے
تمہیں آباد گھر اچھا نہیں لگتا تھا سو ہم نے
کوئی رونق نہیں رہنے دی دل کے درد خانے میں
مجھے ویرانیاں کچھ اس لیے بھی راس آتی ہیں
وہاں اک اک نشانی میرے اندر کی نشانی ہے
کہانی کا سرا جو تم سے جا ملتا تھا ماضی میں
کسی گنجل میں یوں گم ہو گیا ہے جیسے دکھ سکھ ہو
دکھوں کی اپنی اپنی بولیاں ہیں دل کی دنیا میں
مرے زخموں سے تیرا دکھ گلے لگ لگ کے رویا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – بارشوں کے موسم میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *