جب کسی کے لوٹ آنے کی کوئی امید نہ ہو تو دروازے بڑی
سختی سے بند ہو جاتے ہیں
جڑ جاتے ہیں
آپس میں پیوست ہو جاتے ہیں
اور ایسے میں جب زنگ آلود بھی ہو جائیں
اور کوئی دستک ہو
تو سنائی نہیں دیتی
اور اگر سنائی دے بھی تو جائے
تو دھوکہ لگتی ہے
گمان، شائبہ، یا وہم
لیکن مسلسل ہو
تو آخر چونکنا ہی پڑتا ہے
کون ہے
میں نے دروازہ کھولے بغیر پوچھا
داسی
باہر سے آواز آئی
عجیب، شکستہ، دھیمی
لیکن پر عزم آواز تھی
کیا ہے؟
میں نے پوچھا
دروازہ کھولو
اس نے کہا
لیکن یہ تو بند ہے
اور بند ہو کے جُڑ گیا ہے
اور جڑ کے پیوست ہو گیا ہے
اور پیوست ہو کے زنگ آلود ہو گیا ہے
میں نے کہا
ٹھیک ہے، میں دور سے آئی ہوں
بہت دور سے
اس پورے شہر میں
بس ایک یہی دروازہ ہے
جس کے باہر کوئی بھنور نہیں
کوئی جال، کوئی پنجرہ نہیں
ایک یہی دروازہ ہے
اس بھرے شہر میں
جس پر بھوک نہیں لکھی
جس پہ کسی آنکھ کی حرص
اور خواہش کی ہوس کندہ نہیں
ایک یہی در ہے جہاں خوب کی بُو
اور غرض کا تعفّن نہیں
ایک دکھ زدہ اپنائیت
اور پناہ ہے
ایک چھاؤں اور ایک امان ہے
ایک کرب آلود آسودگی ہے
میں بہت دور سے آئی ہوں
اور تھکی ہوئی ہوں
اور اجڑی ہوئی ہوں
ایک تھکن اور ایک وحشت
اور ایک ڈر
اور ایک خزاں
میرے تعاقب میں ہے
دروازہ نہیں کھلتا
تو نہ کھلے
لیکن مجھے یہاں رہنا ہے
اسی بند دروازے کے پاس
اسی خاموش دہلیز سے لگ کے
اسی زنگ آلود طاق پہ سر رکھ کے
وہ بول رہی تھی
اور آنسوؤں سے میرا اجڑا ہوا گھر بھیگ رہا تھا
اور در و دیوار ڈوب رہے تھے
فرحت عباس شاہ