ایک آنسو کیا اتر آیا مرے رخسار پر
دیکھ کتنی روشنی بکھری ہے چہرے پر مرے
دیکھ تیرا غم نکھر آیا مرے رخسار پر
آنکھ سے ٹھوڑی تلک رنگوں سے پُر تھا راستہ
ایک قطرہ کیا سنور آیا مرے رخسار پر
اک حیا نے جیسے بھر دیں خالی شریانیں مری
رنگ بھی دیکھو کدھر آیا مرے رخسار پر
تمتما اٹھی زمانے بھر کے صحراؤں کی ریت
عکس جذبوں کا نظر آیا مرے رخسار پر
فرحت عباس شاہ