درد کی آدھی آدھی صدیاں

درد کی آدھی آدھی صدیاں
درد کو عمر کی قید نہیں ہے
کوئی بھی ’’بچہ بوڑھا درد‘‘ کسی بھی عمر کے دل میں آ کر بس سکتا ہے
عمر بہت گہری ہے شاید
یا پھر شاید درد بہت گہرا ہے کوئی نیلونیل سمندر سا ہے
آدھی عمر گزاری ہم نے
’’بوڑھے درد‘‘ کے بچے دل میں پال پال کے
پال پال کے آدھی عمر گزاری
آدھی
بوڑھے دل سے
’’بچہ درد‘‘ اٹھاتے گزرے گی
گد گد کرتے، چوم چوم کے، ہنستے ہنستے، روتے روتے
منا منا کھیلتے کھیلتے، ہارتے ہارتے، ڈرتے ڈرتے
مرتے مرتے باقی عمر گزاریں گے
ہم کو لمبی عمر عطا کرنا اے خالق
اور کا درد تو اور کا درد ہی ہوتا ہے
کوئی کسی کا درد سنبھال نہیں سکتا
کوئی کسی کے درد کو پال نہیں سکتا
ہم کو لمبی عمر عطا کرنا اے خالق
درد کے عین جواں ہونے تک زندہ رکھنا
مالک ہم کو زندہ رکھنا
درد پہ درد عیاں ہونے تک زندہ رکھنا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *