زخم ملتے ہیں مگر سسکیاں لے لیتے ہیں
کوئی فریاد نہ کرنے کی شرائط پہ اگر چاہو تو گھاؤ لے لو
آج ہم روک رہے تھے رونا
ہم نے محسوس کیا آنکھ میں پانی ہے کوئی
اور کناروں پہ نکل آیا ہے
زندگی اور نکھر آئی ہے
زندگی اشکوں سے دھل کر کسی برسات کی بستی کی طرح
اتنی عجلی نظر آئی ہے کہ جیسے کبھی میلی ہی نہ تھی
اپنے سینوں سے لگے سنتے ہیں ہم اپنے دلوں کی دھڑکن
غم کی رقاصہ بڑی دیر سے ناچے ہی چلی جاتی ہے
رکتی ہی نہیں
زندگی اپنے مسافر کو ترستی ہے بڑی شدت سے
جاگتا جیتا مسافر جسے غم آتا ہو
غم کا آنا ہی تو جیون ہے وگرنہ کیا ہے
شہر والوں نے بہت رکھے ہیں لا لا کے الم
تاکہ ہم اپنی محبت کے عوض کرتے رہیں ان کی خرید
اور مزید اور مزید
تا کہ ہم زندہ رہیں زندہ رہیں
اس قدر مردوں میں ہم زندہ رہیں
کوئی بازار ہو، اک غم کی خریداری سے
زندگی اور سنور جاتی ہے
موت کچھ اور بھی مر جاتی ہے
فرحت عباس شاہ