بے قراری کا تخت و تاج ملا
وقت اک شعبدہ سا ہے اور بس
کل ملا ہے کبھی نہ آج ملا
آنکھ نہ ہی کھلے تو بہتر ہے
آنکھ کھولی تو یہ رواج ملا
عشق سے بیاہ ہو گیا اور پھر
دل کی دلہن کو غم کا راج ملا
لگ کے کندھے سے روتا جاتا تھا
آج تک جو بھی ہم مزاج ملا
دن کو ہم سے ملا ہے صبرِ جمیل
رات کو درد کا خراج ملا
تیری یادیں ہی چھانتے ہیں ہم
دیکھ تو کیسا کام کاج ملا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)