دریا کناروں پر آباد بستیوں کی قسم
محبت آباد ہی کرتی ہے برباد نہیں
دریا جہاں جہاں تک بہتا چلا جاتا ہے
شادابی بکھیر دیتا ہے
تمہارے اور میرے درمیان ایک دریا تھا
جو میری طرف سےبہتا چلا گیا
اور تمہاری طرف ٹھہر گیا
حالانکہ دریا ٹھہرتا نہیں
بس ٹھہرا ہوا لگتا ہے
تمہارا کنارا میرے کنارے کی طرف بڑھا نہیں
اور میرا کنارا تمہارے کنارے تک پہنچ نہیں سکا
دریا پھر بھی موجود رہا
میرا خیال ہے
دریا ہی وہ پل تھا جو تمہارے اور میرے کناروں سے ملا ہوا تھا
اور شاید دریا ہی وہ پل ہوتا ہے
جو ہمیشہ ملائے رکھتا ہے
کبھی درمیان سے ٹوٹ کے گر نہیں پڑتا
محبت اگر محبت ہے
تو کبھی دو کناروں کی طرح آپس میں مل نہیں سکتی
ایک دریا کی طرح دونوں کو ساتھ ساتھ لیے چلتی ہے
الگ بھی نہیں ہونے دیتی
ہم جب چاہیں
ایک دوسرے کی طرف
اپنی اپنی کشتیاں روانہ کر سکتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)