دشمنی دل سے ہوئی وابستہ

دشمنی دل سے ہوئی وابستہ
اک جہاں بھاگ پڑا دل کی طرف
کون جھپٹے گا بھلا پہلے رگِ نازک پر
کون کس خانے پہ ٹوٹے گا مصیبت بن کر
وار پہلے کوئی کس سمت سے کر جائے گا
اپنی اپنی کسی بے مائیگی ذات کے ہاتھوں میں پلے لوگ کہاں چھوڑتے ہیں
اپنی اپنی کسی محرومی کی محکومی میں آئے ہوئے منحوس غلام
نیتوں ہی کی مریضانہ روش میں جکڑے
بڑھ رہے ہیں مرے چاروں جانب
گھیرتے جاتے ہیں مظلوم دل آزردہ
شہر میں جرم ہے معصومی و پاکیزگی و سادہ دلی
اب تو حکمت کے سوا چارہ نہیں ہے کوئی
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ ہمیشہ وہی قربانی دے جو سچا ہو
جھوٹ کو کیوں نہ لتاڑا جائے
کیوں نہ بھالا کوئی شیطان کے سینے میں اتارا جائے
کیوں نہ اس بار کٹیں سر سرِ میدان
یزیدوں کی مہارت کے ساتھ
کیوں نہ اب مشعلیں تاریکی کے سینے میں اتاری جائیں
کیوں نہ فرعون کی گردن میں شکنجہ ہو کسی موسیٰ کا
دشمنی دل سے ہے وابستہ تو پھر بھی کیا ہے
دل تو وابستہ عداوت سے نہیں
دل تو مائل نہیں بے دل کی طرف
وقت کو چاہئیے کچھ دیر کو الٹا بھی چلے
کچھ تو مظلوموں کی تاریخ بھی بدلے آخر
حکمتِ غم کا اجارہ بھی ضروری ہے
حکومت بھی بہت لازم ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *