دکھ بھی میرے ساتھ یہ کیسا ہوا

دکھ بھی میرے ساتھ یہ کیسا ہوا
بحر تھا میں، تُو ملا صحرا ہوا
سارے اپنی مستیوں میں مست ہیں
شب ہوئی، جنگل ہوا، دریا ہوا
رہ رہا تھا ساتھ اپنے عمر سے
ایک دن میں بھی بہت تنہا ہوا
یاد ہے تجھ کو کہ تو کیسے مجھے
مل گیا تھا دھوپ میں بیٹھا ہوا
کچھ نیا شامل ہوا ہو تو کہو
شہر سارا ہے مرا دیکھا ہوا
آنکھ میں اک یاد ہے بھیگی ہوئی
دل میں اک کانٹا بھی ہے ٹوٹا ہوا
پانیوں میں آسرا ہے اک شجر
اور شجر سے سانپ ہے لپٹا ہوا
تم بظاہر تو ہمارے ساتھ ہو
دل تمہارا ہے مگر بھٹکا ہوا
آنسوؤں کا مجھ سے کرتے ہو سوال
آنکھ میں دریا ہے اک پھیلا ہوا
آنکھ بچی ہے کوئی سہمی ہوئی
دل بھی بچہ ہے مگر بگڑا ہوا
دیکھتا کیا ہوں مرے چاروں طرف
شہر ہے اور شہر ہے سہما ہوا
اس کے ماتھے پر محبت کا کوئی
اک ستارہ ہے بہت چمکا ہوا
زندگی مسلی ہوئی تصویر ہے
اور منظر بھی بہت اجڑا ہوا
دل سے ہے پلٹی ہوئی زنجیر سی
پاؤں سے رستہ ترا لپٹا ہوا
بے سبب تھیں آپ کی بے چینیاں
بے سبب ہی آپ کا چرچا ہوا
زندگی خود ہی ہے وجہِ اضطراب
اور اک تُو ہے کہ ہے روٹھا ہوا
اب تو یہ باتیں پرانی ہو گئیں
کاٹتے ہیں ہم جو ہو بویا ہوا
ہر طرف اک بے حسی ہے شہر میں
ہر طرف اک زہر ہے پھیلا ہوا
ہر طرف ہی بھیڑ ہے اک اجنبی
اور مرا بے چین دل کھویا ہوا
میں نے پلکوں سے مسل ڈالا جسے
آنکھ میں آنسو ہے اک مسلا ہوا
دور تک صحرا ہے اور خاموش ہے
رات ہے اور اک شجر ٹوٹا ہوا
اس سے آگے منزل ایمان تھی
آ کے کیسے موڑ پر دھوکہ ہوا
ایک سورج ہے تری امید کا
شام کی دہلیز پر بیٹھا ہوا
راستے بھر میں کوئی بولا نہیں
راستہ بھی تھا بہت سہما ہوا
خواب میں بھی بے قراری ہے ہمیں
اور اک غم ہے تھکا ہارا ہوا
آنکھ کا زندان ہے، زندان میں
کوئی بادل ہے بہت رویا ہوا
تیرے جانے کا خیال آتے ہی میں
جاگ اٹھا چین سے سویا ہوا
تجھ پہ تو واجب ہے میرا احترام
تو نے تھاما ہے مرا چوما ہوا
کیا مجھے خلقت بھی ہے بھولی ہوئی
کیا خدا بھی ہے مجھے بھولا ہوا
مدتوں کے گونگے بہرے شہر میں
میں اگر خاموش ہوں تو کیا ہوا
بارشیں آبادیاں بھی لے گئیں
تو یہ کہتا ہے کہ سب اچھا ہوا
رات اتنی زور سے دھڑکی ہے کیوں
کیوں اندھیرا ہے بہت ٹوٹا ہوا
ہم سمندر سے بھی یہ کہتے رہے
خاک میں بھی ہے کوئی ڈوبا ہوا
آنکھ بنتی ہی نہیں ہے فرش سے
جانے کیا ہے خاک میں کھویا ہوا
ہو لیے ہو تم بھی میرے ساتھ کیوں
میں تو اپنی رہ سے ہوں بھٹکا ہوا
بارشیں اور پیاس جاتی ہی نہیں
دل مرا بھی کیا عجب صحرا ہوا
دل کے بارے میں کہیں بھی آج تک
میں نے تو لکھا نہیں بھٹکا ہوا
یہ الگ دریائے غم میں دل مرا
ہے بہت ہی دیر سے ڈوبا ہوا
روح کی سب تختیوں پر آپ کا
ایک اک فرمان ہے لکھا ہوا
پھر رہا ہے تیری چپ کے شہر میں
آج بھی تجھ سے کوئی روٹھا ہوا
بے قراری عیب لگنے لگ گئی
اس قدر کوئی رہا ٹھٹھکا ہوا
وقت ہم سے چھین لے گا ہجر بھی
ہم نے گر رکھا اسے اجڑا ہوا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *