دل ابھی لوٹا نہیں
صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے
رات بھی بیت چلی ہے اب تو
جانے کس بیتے ہوئے وصل کے کملائے ہوئے در پہ پڑا ہو گا کہیں
جانے کس اُلجھے ہوئے ہجر کے زانو پہ ذرا ٹیک کے سر
چین سے سویا ہوگا
دل ابھی لوٹا نہیں
صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے
آگیا ہوگا کسی درد کے بہلاوے میں
اور کسی راہ کے ویران کنارے پہ پڑا خوب بلکتا ہو گا
آتے جاتے ہوئے ہر ایک مسافر کی طرف
ایک سہمی ہوئی امید سے تکتا ہو گا
سوچتا ہوگا جدائی کی کوئی انت نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)