کٹ گیا سارا سفر آوارہ
زندگی بھٹکا ہوا جنگل ہے
راہ بے چین شجر آوارہ
روح کی کھڑکی سے ہم جھانکتے ہیں
اور لگتا ہے نگر آوارہ
تجھ کو معلوم کہاں ہو گا کہ شب
کیسے کرتے ہیں بسر آوارہ
مجھ کو معلوم ہے اپنے بارے
ہوں بہت اچھا مگر آوارہ
یہ الگ بات کہ بس پل دو پل
لوٹ کے آتے ہیں گھر آوارہ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)