ایسا جھنجھلایا ہوا جیسے کوئی آندھی ہو
راہ میں آئی ہر اک شے کو الٹ مارتا، ٹھکراتا ہوا
کیا خبر تھی کہ طبیعت ہی بدل دیتے ہیں یہ ہجر و فراق
ہم مزاجی میں تضادات کے پہلو نکل آتے ہیں بڑی سرعت سے
وصل بارش ہے تو پھر دھوپ بھی ہے
ہجر صحرا ہے مگر ڈھونڈنے پڑتے ہیں شجر
چاندنی رات کوئی روز نہیں آجاتی
تیرگی جاتی نہیں دن میں بھی
ریت پر پاؤں دھریں دشت اڑاتا ہے مذاق
شام کو ساتھ رکھیں پل میں الجھ پڑتی ہے
اور ہوا طنز میں ڈوبی ہوئی آ لگتی ہے
گیت بے زاری بڑھا دیتے ہیں
رنگ بے کار کیے رکھتے ہیں
بارشیں کچھ بھی نہیں کہتیں تو بڑھ جاتی ہے
کچھ اور بھی ویرانی سی
ساعتیں تازہ خراشوں کی طرح
ذہن کا ننگا بدن تلخ کیے رکھتی ہیں
انگلیاں مڑتی ہیں مفلوج مریضوں کی طرح
درد کو جیسے کسی درد کی دہشت سے رہائی نہ ملے
دل ترے بعد مسلسل کسی وحشت میں رہا
فرحت عباس شاہ