دل شکنجے میں کس گیا ہے چاند

دل شکنجے میں کس گیا ہے چاند
آ کے مجھ پر برس گیا ہے چاند
دور تک چاندنی ہے سینے میں
دل کے آنگن میں بس گیا ہے چاند
چاندنی میں بھی پڑ گئی ہے دراڑ
اب تو اتنا برس گیا ہے چاند
جانے کب پانیوں کے بادل تھے
ایک پل میں جھلس گیا ہے چاند
تیرے چہرے کے بعد دیکھا تو
میری آنکھوں کو ڈس گیا ہے چاند
سامنے اُس کے جب بھی آیا ہے
مانندِ خارو خس گیا ہے چاند
خواہشیں کھینچ لائیں تھیں اس کو
چھُو کے دل کا مگس گیا ہے چاند
فرحت عباس شاہ
(کتاب – روز ہوں گی ملاقاتیں اے دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *