دل غمزدہ
کسی خود فریبی کی آڑ میں
بھلا کب تلک
شبِ غم سے بھاگو گے دور، موسیٰ کے طور تک
وہ جو چھپ کے بیٹھا ہوا ہے دل کے کواڑ میں
وہی دکھ کہیں نہ کہیں سے بجلی گرائے گا
وہ سیاہ رنگ پہاڑ ہے
وہ تو بولتا بھی ہے چل بھی سکتا ہے، بھاگ بھی
دل غمزدہ ذرا جاگ بھی
اسے جاگ جاگ کے جھومتے ہوئے دیکھ بھی
بڑی احتیاط سے غور کر
اسے چھاؤں بننے سے روک دے
ابھی ٹوک دے
وہ پہاڑ ہے
کوئی بے ضرر سا شجر نہیں
دل غمزدہ یہ بھی یاد رکھ
ترے پَر نہیں
فرحت عباس شاہ