درد پھر سے سنبھلتے جاتے ہیں
تیرے بارے میں حوصلے میرے
بازوؤں سے نکلتے جاتے ہیں
آنسوؤں کے چراغ پلکوں پر
ایک اک کر کے جلتے جاتے ہیں
اب تو دل میں بھی بستیوں کی طرح
شام کے سائے ڈھلتے جاتے ہیں
بے بسی کے عجیب رستوں پر
لوگ چپ چاپ چلتے جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)