دل میں خواہش تھی بہت دیر سے آزادی کی

دل میں خواہش تھی بہت دیر سے آزادی کی
رات کچھ خواب مرے شہر میں آوارہ پھرے
بے سبب نیند سے جاگے تو یہ محسوس ہوا
بے قراری تو کوئی اور بھی پوشیدہ ہے
ایک بس تو ہی نہیں روح کے تڑپانے کو
شہر کا شہر چلا آتا ہے غمخانے کو
راکھ کے ڈھیر میں سوئی ہوئی چنگاری کو
کیوں ہوا دیتے ہو بہلی ہوئی بے زاری کو
رات اک خواب میں ہم دونوں ملے ہیں اور پھر
میں نے دیکھا کہ ترے ہاتھ میں زنجیریں ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس شامیں اجاڑ رستے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *