تیرے بن جان مری سارے ہی بے تاب ہوئے
کھیت تجھ بن کسی موسم میں ہرے ہو نہ سکے
باغ تجھ بن نہ بہاروں میں بھی شاداب ہوئے
ہم نے اک عمر گزاری ترے صحراؤں میں
ہم تو اک عمر فقط اشکوں سے سیراب ہوئے
دھیرے دھیرے مجھے گھیرا ہے جنوں نے تیرے
رفتہ رفتہ مری بربادی کے اسباب ہوئے
تم ہٹے پردہ ویرانی شب سے جیسے
ایک اک کر کے سبھی دکھ مرے مہتاب ہوئے
اب نہیں ملتے وہ چاندی کی طرح اجلے ضمیر
اب وہ سونے میں ڈھلے لوگ تو نایاب ہوئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)