دل ہے بے تاب اور نظر بے چین

دل ہے بے تاب اور نظر بے چین
شام بے چین ہے شجر بے چین
بند آنکھوں میں ہے خدا بے تاب
آنکھ کھولوں تو ہے بشر بے چین
روح میں مستقل ہے ٹھہرا ہوا
رات کا آخری پہر بے چین
جانے کس چیز کی کمی ہے یہاں
جانے کیونکر ہے سب نگر بے چین
دیکھ کر ظالموں کے نیزوں کو
ہونے لگتا ہے میرا سر بے چین
دیکھ کر پنجروں کے دروازے
ہو گئے پنچھیوں کے پَر بے چین
جانے اب کس طرح سکون ملے
ایک ہی گھر ہے اور گھر بے چین
فرحت عباس شاہ
(کتاب – کہاں ہو تم)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *