مجھے لینے کو پھر آئی مصیبت
میں سارے حوصلے گم کر چکا ہوں
مجھے کس موڑ پر لائی مصیبت
جو ڈر کر سو گئے قسمت کے مارے
تو خوابوں میں بھی دکھلائی مصیبت
گیا تھا زیست کے بازار میں میں
مری تقدیر کو بھائی مصیبت
خوشی ہرجائی ہوتی ہے مری جاں
نہیں ہوتی ہے ہر جائی مصیبت
سیہ گہرے گھنیرے بادلوں سی
ہے چاروں سمت ہی چھائی مصیبت
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)