دہلیزیں

دہلیزیں
ہماری چھت
ہمارا سائباں دہلیز ہے
جس کے کنارے پر بڑا بے سائباں ماحول بستا ہے
جہاں بے سائبانی کی خبر ہر سائباں کی زندگی کے بعد ملتی ہے
ہمارے سر پہ قائم آسماں دہلیز ہے
جس کے کنارے پر
کسی بے آسمانی کا نظامِ بے خودی بھی منتظر ہے
اور اسے شاید زمینوں کی زمینیں اور سمندر کا سمندر ہی الٹ دینے میں لمحہ بھی نہیں لگتا
ہماری شہ رگوں والا خدا بھی تو کوئی دہلیز ہے
جس کے کنارے پر کوئی خواہش خدائی کی بھی رہتی ہے
تماشا دیکھنے کی بے نیازی کی کوئی خواہش
ہمارے سب کنارے توڑتی خواہش
سہارے توڑتی خواہش
کبھی آباد کرتی ہے
کبھی برباد کرتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *