کھڑکیاں گرد سے کھلتی نہیں اک مدت سے
سانس لینے کو ہم آئے تھے چھتوں پر لیکن
خاک ٹھہری ہوئی تھی، اڑنے لگی
گرد کا لاوا امڈ تاہی چلا آتا ہے
یہ زمیں بھی تو اڑاتی ہے ہنسی
اور غصے میں بھی آجاتی ہے
پھٹ بھی پڑتی ہے
کبھی گھوم بھی جاتی ہے بہت
خون آشام درندوں کی طرح
اور اگل دیتی ہے بربادی بھی
کون سے چاند پہ ہم رک جائیں
کہاں جا ٹھہریں
آسماں گرد ہے اک ٹھہری ہوئی
چاند گردش میں ہیں اور سورج بھی
سانس لینا بھی نہیں ہے ممکن
فرحت عباس شاہ