روز تیرے دکھ سنبھالے رکھ دیے
ایک بس تیرا حوالہ چُن لیا
ہم نے اپنے سب حوالے رکھ دیے
ذات کے بے نور خانوں میں کہیں
اس نے میرے سب اجالے رکھ دیے
راستے سارے اٹھا کر لے گیا
اور مرے پیروں میں چھالے رکھ دیے
میں نے دروازوں سے اس کی بات کی
اس نے آنکھوں پر بھی تالے رکھ دیے
کون تھا جس نے تجھے ویراں کیا
کس نے تیرے دل میں جالے رکھ دیے
بخش کر مجھ کو فقیری عشق کی
ساتھ میرے شہر والے رکھ دیے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)