ٹھوکریں اپنا مقدر ہو گئیں
دشت سے نظریں ملاؤں کس طرح
وحشتیں سر کے برابر ہو گئیں
آج برسوں بعد رویا تو لگا
جیسے پلکیں خون سے تر ہو گئیں
پہلے تو اک یاد اور اک شام تھی
اب ہوائیں بھی ستمگر ہو گئیں
درد تیرا بھی نہیں بنتا غزل
انگلیاں میری بھی پتھر ہو گئیں
گھومتے رہنے میں سکھ ملنے لگا
شہر کی گلیاں مرا گھر ہو گئیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)