کوئی دریا ہے جوانی میری
چند قبریں ہیں مرے پہلو میں
ایک صحرا ہے نشانی میری
اپنے حالات پہ اب ڈال نظر
یاد کر بات پرانی میری
کوئی ہنستا ہے کوئی روتا ہے
جو بھی سنتا ہے کہانی میری
ایک پل لگتا ہے مر جانے میں
آرزو کتنی ہے فانی میری
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)