دل پہ دل کا اثر نہیں ملتا
شہر سے کربلائیں گزریں کیا
جسم ملتا ہے سر نہیں ملتا
گھر بنانے کی بات ہے ورنہ
کس کو دیوار و در نہیں ملتا
زندگی ہو نصیب یا محبوب
کوئی بارِ دگر نہیں ملتا
جانے کیا ہو گیا ہے رستوں کو
گھر سے نکلیں تو گھر نہیں ملتا
ہم اسی قافلے میں ہیں شاید
جس کو اپنا سفر نہیں ملتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)