اپنی بے چارگی جاں میں گھرے
کوئی تکمیل نہیں کر پاتے
عمر لگتی ہے ہمیں درد کی عادات کو اپنانے میں
پھر کوئی صدمہ بلک پڑتا ہے
نت نئے درد کے پاتال میں بیٹھے بیٹھے
جڑ گیا ہے مرا بے تاب وجود
جسم کھولوں تو کراہوں کی زباں کھلتی ہے
ہر سفر اگلے سے پہلے ہی بھٹک جاتا ہے
زندگی مخفی ہے اور مخفی ہی رہتی ہے سدا
کون کہتا ہے کہ یہ جوئے رواں کھلتی ہے
ہر نئے موڑ پہ ہے اگلا ستم پوشیدہ
کوئی تکمیل بھی ممکن نہیں معلوم بنا
منزلیں آتی نظر آتی ہیں
راستے جاتے نظر آتے ہیں
غم کا ماحول بدلتا ہی نہیں
اتنے ٹکڑوں میں بٹی رہتی ہے ہستی
کہ بتانا بھی بہت مشکل ہے
ریت کا اپنا ہے کردار کوئی سنگ کی دیواروں میں
وقت کی زود فراموشی بھی شامل ہے گنہگاروں میں
فرحت عباس شاہ