رات آنکھوں میں نمک گھول گئی

رات آنکھوں میں نمک گھول گئی
رات آنکھوں میں نمک گھول گئی
اشک ہو جائیں اگر خشک تو پھر دیر تلک
رات آنکھوں میں بہت چبھتی ہے
رتجگے ہجر کے زخموں کی طرح
مندمل ہو کے بھی کھل جاتے ہیں
اک جگہ ٹھہرا ہوا وقت بھی کیسی شے ہے
بے مروت بھی بہت
بے سروساماں بھی بہت
درد کی بات پہ رک جاتا ہو صدیوں جیسے
زندگی ذات میں یوں تیری چمک گھول گئی
ہو گئیں دکھ کی قطاریں روشن
ہر نئے منظر و پس منظر میں
تیری یادوں کی جھلک گھول گئی
جاگنے والی کئی صدیوں سے
بدنصیبی بھی کبھی سوئی ہے
رات آنکھوں میں نمک گھول گئی
رات آنکھوں میں بہت روئی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *