رات اور دن کی بیابانی سے محسوس ہوا
کچھ نہ کچھ غائب ہے
کچھ نہ کچھ ایسا جسے ہونا تھا
تو، ترے خواب، تمنائیں یا امید کوئی
منتظر دل، لب بے آب یا چشم پرنم
کوئی محرومی یا بے چینی کوئی
کچھ خلا ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آ جاتی ہے رونق جن سے
عمر کے اجڑے ہوئے شہروں میں
زندگی ہوتی ہے کچھ زہروں میں
ہم جو تریاق سمجھ کر تجھے بھولے تو سمجھ آیا کہ جیون کیا ہے
تیرے آجانے کی امید پہ اٹکی ہوئی سانسوں کی قسم
زندگی کچھ نہیں اندوہ بنا
تیرے اندوہ کو دیکھا ہے الگ کر کے تو پھر کچھ بھی نہیں باقی بچا
تیری یادوں میں بہائے ہوئے آنسو جیون
تیرے زخموں سے بسائی ہوئی بستی جیون
تیرے زخموں سے سجایا ہوا رستہ جیون
رات اور دن کی بیابانی سے محسوس ہوا
ساری ویرانی ترے بعد ہوئی ہے پیدا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)