رات پھر جیت گئی

رات پھر جیت گئی
رات پھر زخمی وریدوں میں اتر آئی ہے
ہم نے سمجھا تھا
کہ سورج کی چکا کر قیمت
نیم تاریکی کے ناسوروں سے بچ جائیں گے
یہ سیہ زخم
کسی قبر کی مانند تعاقب میں ہیں جانے کب سے
یہ سیہ زخم
جو ہر سال کسی آس، کسی خواب سے اُگ آتے ہیں شریانوں میں
اورلہو چوستے ہیں
یہ سیہ زخم
جو بے چین تمناؤں کی آنکھوں سے ٹپکتے ہیں
کسی ٹوٹی ہوئی چھت کی طرح
رات پھر زخمی وریدوں میں اتر آئی ہے
ہم نے جتنے بھی چراغوں پہ لگایا تھا لہو
جس قدر خرچ کیا تھا اپنا
سارا بے کار گیا
چھپ کے بیٹھا ہوا اک سانپ ترے دکھ کا ہمیں مار گیا
دیکھ لو پھر سے ہمیں مار گیا
رات پھر جیت گئی
دن ہمیشہ کی طرح ہار گیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *