رات پھر بیت گئی
ہم نے سمجھا تھا نہیں بیتے گی
جس طرح ٹھہرے تھے بادل غم کے
جس طرح ساکت و صامت تھے ستارے دکھ کے
جس طرح چاند کسی وہم کے پتھر کی طرح
ہلتا جلتا ہی نہیں تھا کہ ذرا سکھ ملتا
جس طرح عین اتر آئی تھی ویرانی بھی پیشانی پر
تیرگی سیاہ نصیبوں کی طرح
ایسا لگتا تھا کہ بس لکھی گئی
وقت لگتا تھا کہ گزرے گا کبھی
درد کب لگتا تھا اترے گا کبھی دریا سا
ہاں مگر ایسا ہوا
زندگی ہار گئی
موت پھر جیت گئی
رات پھر بیت گئی
ہم نے سمجھا تھا نہیں بیتے گی
آج کے بعد تیرے ہجر کو دہرایا نہ جائے گا کبھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)