تیرا پتہ پوچھتے ہم جلتے رہے
جستجو آگ تھی بھڑکی ہوئی شریانوں میں
اپنے انگاروں پہ ہم چلتے رہے چلتے رہے
جھولنا جھولنے والوں کی طرح
دل میں لہراتا رہا تیرا خیال
زخم احساس کی پینگوں کو جھلاتا ہی رہا
زخم احساس جو گیندوں کی طرح
ٹھوکریں کھاتا ہوا چاروں طرف سے یونہی
بن کہے کچھ کف افسوس ہی ملتا رہا ملتا ہی رہا
طیش میں آئے ہوئے جذبے
بہر طور کسی سمت چھلکنا چاہیں
روزن وہم کبھی ٹوٹ کے دروازہ بنے
اور کسی طور کسی خوف کی کھڑکی ٹوٹے
ہم رکاوٹ سے بہت جوش میں آ جاتے ہیں
ہجر میں بپھرے ہوئے دکھ کی طرح
اشک جب جوش میں آتے ہیں تو رکتے ہیں کہاں
عشق کے قافلے رستے میں ٹھہرتے کب ہیں
رکنا چاہیں بھی اگر
بے قراری نہیں رکنے دیتی
آرزو آگ ہے بھڑکی ہوئی شریانوں میں
اور ہم انگاروں پہ چلتے رہے چلتے ہی رہے
فرحت عباس شاہ