رات ڈھل آئی ہے

رات ڈھل آئی ہے
موت کی آمد کا پتہ
موت کا آغاز
ایک وہ موت جو روز آتی ہے
ہر روز رات ڈھل آنے پر
ایک وہ موت جو اکثر آتی رہتی ہے
وقتاً فوقتاً
جس دن مجھے اس سے محبت ہوئی تھی
شاید اس دن میں پہلی دفعہ مر گیا تھا
میرے اندر خود مجھ سے زیادہ وہ زندہ ہو گیا تھا
پھر میں اسے کچھ نہ بتا سکا اور دوسری دفعہ مر گیا
ہم اکثر مر جاتے ہیں
جب کوئی ہماری ’’میں‘‘ کو مارتا ہے
انا کو گرا کے اس کے سینے پہ چڑھ کر کھڑا ہو جاتا ہے
اور سینے پر گہرے گہرے زخم بن جاتے ہیں
اور ہوائیں انہیں چھو کے گزرتی ہیں
کبھی آہستگی سے
اور کبھی تیز رفتاری سے، کاٹتی چیرتی ہوئی تیز رفتاری سے
اور ہم نابینا بیواؤں کی طرح
اپنی ہی سسکیوں سے ٹکراتے پھرتے ہیں
موت قریب ہو
یا آس پاس
تو سسکی بھی ستون بن جاتی ہے
اور آپ ہی آپ آ آ کے ہم سے ٹکراتی ہے
ہم سے
اور ہماری پیشانیوں اور ہمارے ہونٹوں سے
اور ہماری آنکھوں سے
سسکی آنکھوں سے ٹکراتی ہے اور آنکھیں کھل جاتی ہیں
لیکن آنکھیں بہت دیر سے کھلتی ہیں
تب تک ہم مر چکے ہوتے ہیں
دھوکہ بھی موت ہی ہوتا ہے
دھوکہ کھانے والا بھی مر جاتا ہے
میں نے اسے ایک دھوکہ دیا تھا
اس سے اپنی محبت چھپائی تھی
اس نے مجھے بار بار دھوکہ دیا
مجھے بار بار ایسی محبت بتائی جو تھی ہی نہیں
دھوکہ ایک گڑھا ہوتا ہے
جو دھوکہ دینے والے کے راستے میں پڑ جاتا ہے
اس کے راستے میں
خود اس کے اپنے دھوکوں سے کھودے ہوئے بہت سارے گڑھے ہیں، تاریک سیاہ
جن میں سے کچھ میں وہ گر چکا ہے
اور ابھی بہت سارے باقی ہیں
اس کی بھی اب رات ڈھل ہی آئی ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *