رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
بات بھی محبت کی
گھات کی ضرورت ہے
گھات بھی محبت کی
نرم گرم خاموشی
سہج سہج سر گوشی
چور چور دروازے
کون چھپ کے آیا ہے
آرزو نے جنگل میں
راستہ بنایا ہے
جھینپتے ہوئے آنگن
نے درخت سے مل کر
کچھ نہ کچھ چھپایا ہے
آسماں کی کھڑکی میں
سکھ بھری شرارت سے
چاند مسکرایا ہے
چاند مسکرایا ہے
چاندنی نہائی ہے
خوشبوؤں نے موسم میں
آگ سی لگائی ہے
عشق نے محبت کی
آنکھ چومنا چاہی
اور ہوا کے حلقے میں
شوخ سی نزاکت سے
شاخ کسمسائی ہے
رات کا سمندر ہے
رات بھی محبت کی
بات کا اجالا ہے
بات بھی بھی محبت کی
بات کے سویرے میں
زندگی کے گھیرے میں
روح ٹمٹمائی ہے
وصل جھلملایا ہے
دل نے بند سینے میں
حشر سا اٹھایا ہے
کون چھپ کے آیا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)