اس قدر شور تھا اجڑی ہوئی بستی میں کہ کچھ یاد نہیں
ناگہانی کوئی باقی ہی نہیں ہے کہ کبھی چونکنا پڑ جائے ہمیں
سانحہ کوئی بھی ہوروز کے معمول میں آجاتا ہے
کل شب وصل کوئی مار گئی
رات معصوم خیالات کہیں قتل ہوئے
آج اک اجڑے ہوئے دل کو کوئی لوٹ گیا
اس کی بستی میں کوئی مرگ ہوئی
میرے ویرانے سے بے چینی اٹھائی نہ گئی
اس کی بستی سے کسی شک کو نکالا نہ گیا
میرے گھر میں نہ کبھی لائی گئی کوئی خوشی
ناگہانی کوئی باقی ہی نہیں
سانحے روز کے معمول میں آجاتے ہیں
رات کس درد کی آئی تھی خبر
یاد نہیں
فرحت عباس شاہ