کسی اوقات کے بے پایاں تصرف میں ہے پر نور دیار
اس طرح چاند کی قربانی بھی ناجائز ہے
جیسے تم بات کے رستوں میں بھٹک جاتے ہو
نیند آنکھوں کو تھکا دیتی ہے
زندگی نیند سے تھک ہار کے سو جاتی ہے
زندگی سے تجھے دیکھا ہے اگرچہ ہم نے
پھر بھی کچھ راکھ پڑی رہتی ہے
بے نام مزاروں کی طرح
انگلیاں کب ہیں سلامت کہ ستارے نہ گریں
رات ہر روز قیامت میں دبک جاتی ہے
آڑ لے کر بھی کوئی پیار کیا کرتا ہے؟
یہ تو اک حملے کا انداز ہے محتاط عدو کے مانند
خواب آلود نشانی کی طرح
دل پشیمان ہے، دل ہے ہی نہیں
راکھ میں لتھڑا ہوا پتھر ہے
ہم تجھے اس لیے ویران گزرگاہوں میں لیکر نکلے
بھیڑ کم ہو گی تو جی بھر کے تجھے دیکھیں گے
شور کم ہوگا تو جی بھر کے سنیں گے تجھ کو
شور کم ہو گا تو تم ساتھ زیادہ ہو گے
ہم تجھے کھل کے کریں گے محسوس
وقت کم ہو گا تو ہم ٹوٹ کے چاہیں گے تجھے
فرحت عباس شاہ