ایسا لگتا ہے سو چکا ہوں میں
پہلے ثابت تو کر لوں میں اس کو
پھر کہوں گا کہ ہو چکا ہوں میں
میں نے دیکھا کہ اپنے رستے میں
خار ہی خار بو چکا ہوں میں
یوں کھلے عام آ گیا چل کر
جس طرح داغ دھو چکا ہوں میں
خواب میں خشک ہے ترا لہجہ
اپنی آنکھیں بھگو چکا ہوں میں
دھل گئے ہیں نگر شجر سارے
آج تو اتنا رو چکا ہوں میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)