رات کی کوکھ میں آوارہ پھرو

رات کی کوکھ میں آوارہ پھرو
خواب گنو
عشق کی چوٹ سے درماندہ تو تھے ہی دل و جاں
ساکھ کی راکھ کے ہاتھوں میں
اداسی کے سوا کچھ بھی نہ تھا
بے سبب آئینہ بردار خیالات سلگ اٹھتے ہیں
شہر میں دور تلک پھیل چکی ہے خوشبو
رات اور رات کے مابین جو اک کشمکشِ ذات کی بے چینی تھی
احتراماً ترے بازار میں لےآیا ہوں
بیچتے رہتے ہو تم تو ہر شے
اپنی خوشیاں تو الم اوروں کے
بانٹتے رہتے ہو غم اوروں کے
ہم نے اک رات کی خواہش میں کئی دن کھوئے
شامِ غم بیت چلی تھی لیکن
ہم نے جانے نہ دیا روک لیا بڑھ کے اسے
ہم تری یاد میں خوش بیٹھے تھے
تھام کر بہتے ہوئے اشکوں کو
آگیا یونہی اچانک کوئی
اپنے دامن میں لیے زرد اداسی کی تھکن
راہ تکتی ہوئی ویرانی بھی رہتی ہے یہیں
میرے اس گھر کے سدھائے ہوئے دروازے میں
یہ جو دروازے ہیں سب جان لیا کرتے ہیں
کون آئے گا یہاں کون نہیں آئے گا
تیرگی کے لیے مشروط نہیں ہے سورج
تیرگی نور میں ہو سکتی ہے
تیرگی آگ میں ہو سکتی ہے
تیرگی بھاگ میں ہو سکتی ہے
رات کے پچھلے پہر آتی ہےسورج کی طرح
تیرے بچھڑے ہوئے لمحوں کی صدا
کوئی روئی ہوئی تنہائی ہے کمرے میں مرے
میرے خوابوںکی نگاہوں میں چبھوتی ہوئی غم
جس طرح ریت سے آلودہ ہوا
اڑ کے آنکھوں میں پڑے اور شکستہ کر جائے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *